جب ہدف 167رنز کا ہو اور آپ کے 2مستند بلے باز جس میں کپتان بھی ہوں، وہ ابتدائی 5اوور ز میں صرف 13رنز پر آؤٹ ہوجائیں، تو بڑی بڑی ٹیموں کے اعتماد لڑکھڑانے لگتا ہے۔ قدم ڈگمگاتے ہیں اور یقینی طور پر شکست کے بادل سروں پر آکر منڈلانے لگتے ہیں۔کچھ ایسا ہی آج نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں ہوا۔ ابتدا سے ہی انگلش ٹیم نے کیوی بالرز کی جم کر ٹھکائی کی۔ میدان میں کیوی فیلڈرز نے کیچز بھی چھوڑے جبکہ اس کی بالنگ کے دو بڑے ہتھیار ٹرنٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی تو جیسے لائن و لنتھ ہی بھول بیٹھے تھے، جنہوں نے اپنے 8اوورز میں 64رنز دیے۔
رہی سہی کسر ا ب تک سب سے زیادہ پریشان کرنے والے اسپنر سوڈھی کی مہنگی بالنگ نے پوری کردی۔ آج درحقیقت لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی نیوزی لینڈ ٹیم ہے جو ہر شعبے میں 200فی صد کارکردگی دکھاتی ہے۔جس کے پاس گیندآتی نہیں بلکہ وہ اس پر لپک کر خود قابو کرتے ہیں۔
انگلش بلے باز جہاں چاہتے، جدھر چاہتے شاٹس کھیلتے۔ معین علی کا بلا تو جیسے بالرز کے لیے عذاب بن گیا۔ جنہوں نے ناقابل شکست رہتے ہوئے 51رنز جوڑے۔ ڈیو ڈ میلان نے بھی رنز کی بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئے اور 41رنز بنا ڈالے۔ مگر آج قسمت میں نیوزی لینڈ کے لیے کچھ اور لکھا تھا۔ گپٹل اور کین ولیم سن کے ’پاور پلے‘ میں جلد وکٹیں کھونے کے بعد انگلش کپتان ایون مورگن تھوڑے ’ریلکس‘ ہوگئے، غالباً اُن کو دیکھ کر انگلش بالرز اور فیلڈرز بھی۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب ان کے ہاتھوں سے دھیرے دھیرے میچ پھسلنے لگا۔ ڈیوڈ کانوائے اور مچل نے فتح کی بنیاد رکھتے ہوئے 82رنز کی قیمتی ساجھے داری کی۔ کانوائے اور فلپس کے اوپر تلے وکٹیں گرنے کے بعد انگلش ٹیم کی غیر ضروری خود اعتمادی ہی اسے جیت سے اور دور لے گئی۔
ایون مورگن کو اتنا یقین تھا کہ گیندیں کم اور رنز زیادہ ہیں۔وہ کسی صورت نیوزی لینڈ کو فتح کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ اب یہ ان کی بدقسمتی ہی کہیے کہ عادل رشید کا 17واں اوور انگلش ٹیم کے لیے خوف ناک خواب بن گیا۔ جس میں نیشم نے 2بلند و بالا چھکے مار کر گیندوں اور رنز کا فرق بھی معمولی کردیا۔ گوکہ اس اوور کی آخری گیند پر 11گیندوں پر کایہ پلٹنے والے نیشم 27رنز بنا کر چلتے بنے تھے لیکن انگلش ٹیم کو احساس ہوگیا کہ اب میچ میں ان کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ کیونکہ مین آف دی میچ اوپنر مچل اپنے پور ے جوبن پر تھے۔ انہوں نے آج وہی کردار ادا کیا جو 2019میں کیوی ٹیم کے خلاف انگلش بلے باز بین اسٹوکس نے کیا تھا۔ جنہوں نے یقینی شکست کے سیلا ب کا رخ موڑ کر اپنی ٹیم کو جیت دلائی تھی۔
مچل کی بیٹنگ کو دیکھ کر لگ یہی رہا تھا کہ آج جیسے ان کے اندر بین اسٹوکس کی روح سما گئی تھی، جو ایک اینڈ پر کھڑے ہو کر تن تنہا ایک نئی تاریخ لکھنے کی جستجو میں تھے، جیسے بین اسٹوکس نے 2سال پہلے لکھی تھی اور جب مچل نے ڈیپ تھرڈ اسکوائر لیگ پر چوکہ مارکر بلا فضا میں لہرایا تو یہ اس بات کا اعلان تھا کہ نیوزی لینڈ سیمی فائنل کی یہ جنگ جیت گیا ہے۔
ساتھ ہی اُس نے لارڈز کے میدان میں عالمی کپ کے فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ بھی اتار دیا۔میدان میں موجود کیوی تماشائیوں کی آنکھیں 2019کی طرح آج بھی نم تھیں لیکن یہ خوشی اور فرط جذبات میں بھیگی ہوئی تھیں۔
Discussion about this post