طویل انتظار کے بعد آخرکار وزیراعظم عمران خان نے کراچی کا سب سے بڑا منصوبہ گرین لائن بس سروس کا افتتاح کردیا، جو سرجانی ٹاون سے میونسپل پارک، جامع کلاتھ مارکیٹ تک جو 22 کلومیٹر تک طویل ہے۔افتتاحی تقریب کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ ماضی میں کراچی میں کسی نے ٹرانسپورٹ پر کوئی توجہ نہیں۔ روشنیوں کے شہر کو کھنڈر بنتے دیکھا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کراچی خوش حال ہوگا تو ملک خوش حال ہوگا۔ گرین لائن بس منصوبہ جنوری کے وسط تک مکمل فعال ہوجائے گا۔
افتتاحی تقریب سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ غائب؟
وزیراعظم عمران خان جب گرین لائن بس سروس کا افتتاح کررہے تھے تو سندھ کے ایگزیکٹو یعنی مراد علی شاہ غائب رہے۔ اطلاعات کے مطابق مراد علی شاہ، پیپلز پارٹی کے تحت ہونے والے مہنگائی کے خلاف مظاہروں میں شریک تھے۔ دوسری جانب صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا شکوہ کیا کہ افتتاح کے لیے بلایا تو گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کہاں آنا ہے۔
گرین لائن بس سروس کی خصوصیات ہیں کیا؟
اس سروس کی نگرانی ڈائیو کمپنی کرہے گی۔ پاکستان نے چین سے 80بسیں درآمد کی ہیں۔ جو مکمل طور پر ائیر کنڈیشن سے آراستہ ہیں۔ جن میں 140مسافروں کے بیٹھنے کی گنجاش ہے۔ جس کا کرایہ ہوگا 20 روپے سے 55 روپے تک رکھا گیا ہے۔ اس ٹریک کا 12 کلومیٹر ایلی ویٹڈ ہوگا اور باقی 10 کلومیٹرز کا سفر طے ہوگا اسی سروس کے لئے بنائے گئے اسپیشل ٹریک پر۔ دوسرے فیز پر گرومندر سے لے کر ٹاور تک کے لیے گرین لائن بس سروس استعمال کی جائے گی۔ ا س کے لیے ماڈرن بنیادوں پر ڈبل اسٹوری انڈر پاس بنایا جارہا ہے۔ جو گرومندر سے نمائش تک ہوگا۔ اس پورے 22 کلومیٹر ٹریک پر 22 اسٹیشنز ہیں، جہاں سے مسافر اپنا ٹکٹ لے سکتے ہیں اور بس کے لیے انتظار بھی کرسکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ مسافروں کی سیکورٹی کے لیے پورے ٹریک پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے جو ہر موڑ کو مانیٹر کریں گے۔ گرین بس میں معذور افراد کے لیے بھی ایک اسپیشل حصہ بنایا گیا ہے۔ ساتھ، ساتھ مسافروں کی آسانی کے لیے موبائل چارجرز کے لیے خصوصی انتظام بھی ہے۔ مسافروں کی آسانی کے لیے لفٹ بھی ہے تاکہ اسٹیشن پر اتر کر وہ اس ٹریک سے متصل الگ روڈ تک آسکیں۔ تخمینہ یہ لگایا جارہا ہے ہر روز کی بنیاد پر ایک لاکھ 35 ہزار مسافر مستفید ہونگے۔ توقع یہ بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ اس پراجیکٹ سے ماحولیاتی آلودگی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
Short video explaining how the operations command and control center of greenline BRT will work. Bringing 21st century transport to karachi #GreenLineForKarachi pic.twitter.com/t2cBDYGQus
— Asad Umar (@Asad_Umar) December 10, 2021
بس منصوبہ کب شروع ہوا؟
24 ارب روپے کی لاگت سے بننے والے اس منصوبے کو آج سے 7 سال پہلے 2014 میں پلان آوٹ کیا گیا تھا اور جس کے بعد فروری 2016 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جا کر اس کی بنیاد رکھی۔اس منصوبے کا افتتاح فروری 2018میں ہونا تھا لیکن پھر یہ مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔ اس کی ایک وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات بھی رہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کون اس کی ’اونر شپ‘ لے گا۔جس کو حل کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی ای سی این سی سی نے اس منصوبے میں پیش رفت دکھائی۔
یاد رہے کہ اس منصوبے کوسندھ انفراسٹرکچرڈ یویلپمنٹ کمپنی لمٹیڈ کے ذریعے پورا کروایا تاکہ سندھ حکومت کی بھی اس میں شمولیت رہے۔ سندھ انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں چیف سیکریٹری سندھ اور کمشنر کراچی بھی شامل ہیں، ساتھ ساتھ وفاقی پلیننگ منسٹری کے سیکریٹری بھی اس بوڑد میں شامل ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس گرین بس ریپڈ ٹرانزٹ میں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی شراکت داری سے بنا ہے۔ ابتدائی طور پر گرین لائن سروس 12 کلومیٹر کے ٹریک پر بننی تھی لیکن بعد میں سندھ حکومت کی درخواست پر اس میں 10 کلومیٹرتک اور توسیع کی گئی۔ ابتدا میں اس کی لاگت 16 ارب روپے تک تھی پھر بعد میں 24 ارب روپے تک جا پہنچی۔ اس پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران سرجانی سے لے کر نمائش تک مسافروں کو بہت دشواری اٹھانا پڑی۔ کبھی سڑکوں پر کھڈے تو کبھی اڑتی ہوئی گرد۔ اور سب سے زیادہ جن مسائل سے لوگوں کا سامنا ہوا، وہ ٹریفک جام شدید سے شدید تر ہونا تھا۔
گرین لائنز منصوبے کے کریڈٹ کے دعوے دار
تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اس منصوبے کی اونر شپ کے دعوے دار ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس منصوبے کا آغاز نون لیگ کے دور میں ہوا۔ جس کے بعد ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے اس منصوبے پر کام جاری رکھا۔ لیکن نون لیگ بضد ہے کیونکہ اس سروس کی بنیاد اور تعمیر انھوں نے رکھی تو لہذا اس کے اصل حقدار وہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جمعرات کو نون لیگ کے احسن اقبال اور مفتاح اسماعیل اور دیگر رہنماؤں نے علامتی طور پر افتتاح کیا۔ جس کے جواب میں اسد عمر اور گورنرسندھ عمران اسماعیل اسے اپنی حکومت کا کارنامہ قرار دیتے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور کراچی کے ایڈمنسٹر مرتضیٰ وہاب نے تو آج یہ دعوے کیے کہ ہم نے بھی بہت سارے کراچی میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا، وزیراعظم تو صرف اعلان ہی کرتے ہیں، اسی لیے اُن کا نام ’اعلان خان‘ رکھ دینا چاہیے۔
Rangers insult @NawazSharifMNS soldier @betterpakistan on green bus project made by Nawaz Sharif#ThankYouNawazSharif pic.twitter.com/rOEakxFbpw
— AwAis🔥 (@mianawais99) December 9, 2021
گرین لائن بس سروس، ٹرانسپورٹ مافیا کا خاتمہ کر پائے گی؟
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت قابل رحم ہے۔ خستہ حال اور کھٹارہ بسیں سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں۔ جن میں سفر کرنا شہریوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ پھر منی بسیں اور کوچز کی حالت بھی کچھ اس سے کم نہیں۔ جن کی چھتوں پر سفر کرتے مسافر اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ شہر میں ٹرانسپورٹ نظام کس حد تک بد حالی کا شکار ہے۔ چن چی رکشاؤں کی آمد سے ٹرانسپورٹ کے مسائل تھوڑے بہت کم ہوئے تھے لیکن اب وہ بھی بسوں، منی بسوں اور کوچز کی روش پر چلتے ہوئے اپنے رکشاؤں کو مسافروں سے بھرتے جارہے ہیں، اُس پر مہنگا کرایہ ہر شہری کے لیے دہرے عذاب سے کم نہیں۔ یہی نہیں ان میں نصب سی این جی سیلنڈرز کے پھٹنے کے حادثات کسی نہ کسی روز میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں گرین لائن بس سروس، کراچی کے شہریوں کے لیے کسی راحت سے کم نہیں ہوگی۔
عوام کیا خیال رکھے گی اس سروس کا؟
بدقسمتی سے پشاور میں بی آر ٹی سروس کے دوران کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں، جن میں عوام نے اس سروس کو دوران سفر نقصان بھی پہنچایا۔ کراچی والوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سروس اُن کی ادا کیے ہوئے ٹیکس کے تحت شروع کی جارہی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ان بسوں کا خیال رکھیں کیونکہ یہ آپ کی سہولت کے لیے ہیں ورنہ پھر زحمت کراچی والوں کو ہی ہوگی۔
Discussion about this post