آپ اسکویڈ گیم دیکھ ہی چکے ہوں گے۔ اگر میں اس ٹی وی سیریز سے آپ کا پسندیدہ کردار دریافت کروں تو غالب امکان ہے کہ آپ کا جواب کھلاڑی نمبر 456 ہوگا۔ ہم سب کو ہی وہ کردار بہت پسند آیا تھا یا یوں کہا جائے کہ ہمیں وہ کردار دکھایا ہی اس طرح گیا تھا کہ وہ ہمارا پسندیدہ کردار بن گیا۔ حقیقی دنیا میں ہم میں سے کوئی بھی ایک ایسے انسان کو پسند نہیں کرے گا جو جوے کی لت کا شکار ہو اور اپنی ماں اور بیٹی کی ذمہ داری نہ اٹھا سکتا ہو۔گزشتہ دنوں ” ہم ٹی وی ” کا ڈراما سیریل” لاپتا ” ختم ہوا ہے۔ اس ڈرامے میں علی رحمان، سارہ خان اور عائزہ خان مرکزی کردار نبھا رہے تھے۔ اسکویڈ گیم کے کھلاڑی 456 کی طرح اس ڈرامے کا ہیرو (شمس) بھی جوے کی لت کا شکار دکھایا گیا تھا۔ ڈرامے کے شروع میں شمس اپنے والد کی دکان سے پیسے چراتے اور پھر انہیں جوے میں ہارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ڈرامے کے آخر تک ان کا کردار بھی اچھا بن جاتا ہے۔ دوسری طرف ان کی پھپھو زاد گیتی ٹک ٹاک اسٹار ہے ۔
گیتی محلے کے کئی لڑکوں کو اپنے ساتھ شادی پر مجبور کرتی ہے۔ ایک دوست کے منگیتر سے بھی اسے بتائے بغیر ملتی ہے اور اس کے ساتھ شادی کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ وہ اس کی والدہ کے زیور لے کر بھاگ جاتا ہے تو اسے پکڑ کر اُس سے سارا زیور وصول بھی کرتی ہے۔ شمس چچا زاد فلک سے محبت کرتا ہے۔ دونوں ایک گھر میں رہتے ہیں۔ فلک پڑھی لکھی اور سمجھ دار لڑکی ہے۔ وہ بیڈ منٹن کھیلتی ہے۔
گیتی اس کا الٹ ہے۔ وہ بدتمیز بھی ہے۔ اسے گھر کے کام بھی نہیں آتے۔ اس نے پڑھائی بھی نہیں کی لیکن شمس کے برعکس ڈرامے کے آخر میں اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اکیلی رہ جاتی ہے۔ سب اس سے رشتے توڑ لیتے ہیں۔ یہ ڈرامہ روایتی ڈرامے کی ایک بہترین مثال ہے۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ڈیویلپمنٹ جرنلزم کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ اشفاق سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میڈیا صدیوں سے یہی بیانیہ دکھاتا چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر پاکستانی ڈراموں کی بات کرتے ہوئے کہا کہ مردوں کے برے کردار بھی آخر میں اچھے بنا کر دکھا دیے جاتے ہیں۔ خواتین کو یہ رعایت نہیں دی جاتی۔ اگر وہ بری ہوتی ہیں یا کوئی برا فعل کرتی ہیں تو ان کا انجام برا ہی دکھایا جاتا ہے۔ ”آدمی اگر شروع میں برا بھی دکھایا جاتا ہے تو آخر میں اسے نیک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا گھر بس جاتا ہے۔ وہ بیوی اور بچوں کو اپنا لیتا ہے۔ دوسری طرف عورت کا انجام برا ہی دکھایا جاتا ہے۔ وہ سب کچھ کھو دیتی ہے۔ پاگل ہو جاتی ہے۔ اس کا خاندان اسے دھتکار دیتا ہے۔ شوہر طلاق دے دیتا ہے۔ بچے چھوڑ دیتے ہیں اور وہ تنہا رہ جاتی ہے۔“لاپتا میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ فلم کی آخری سین میں جب پورا خاندان شمس اور فلک کی منگنی کے موقع پر موجود ہوتا ہے تو گیتی کہیں نظر نہیں آتی۔
لاپتا میں گیتی اور فلک کے کرداروں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے کہا کہ ہمارے ڈراموں میں خواتین کو مخصوص کرداروں میں دکھایا جاتا ہے۔ اچھی عورت اور بری عورت میں ان کے رویوں اور حالات کے مطابق تخصیص کی جاتی ہے۔ ”عورت کو جب پرفیکٹ دکھانا ہو تو اسے شدید شرمیلی بنا دیتے ہیں۔ اس کے سر پر دوپٹہ ہوگا اور اس کا تعلق غریب گھرانے سے ہوگا۔ اس کے مقابلے میں بری عورت کو امیر گھر سے دکھایا جاتا ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہوگی۔ مغربی لباس پہنتی ہوگی۔ اسے مالی لحاظ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ وہ نوکری بھی کرتی ہوگی۔ اس کے دوستوں میں مرد بھی شامل ہوں گے۔“ ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے مطابق یہ ڈرامے دیکھتے ہوئے انہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی اچھی بیوی یا ماں نہیں بن سکیں گی کیونکہ ان میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ان ڈراموں کی بری عورتوں میں دکھائی جاتی تھیں۔ ”میں اچھے گھر سے ہوں۔ پڑھی لکھی ہوں۔ سر پر دوپٹہ نہیں لیتی ہوں۔ نوکری بھی مالی وجوہات سے نہیں کر رہی ہوں۔ اپنے کیرئیر کے لیے کر رہی ہوں۔ ان ڈراموں کے مطابق تو میں بہت بری عورت ہوں۔“
انہوں نے ڈراما سیریل ” لاپتا ” میں ایک خاتون کے ٹک ٹاکر دکھائے جانے پر کہا کہ ڈراموں میں چونکہ نوکری پیشہ خاتون کو اچھا نہیں دکھایا جاتا تو ایک ٹک ٹاکر کو اچھے دکھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈراموں میں ہیروئین کو صرف مالی مجبوری کی وجہ سے ہی گھر سے باہر کام کے لیے نکلتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ اس دوران وہ کئی مسائل کا سامنا بھی کرتی ہے۔ اس کے گھر والے بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ شادی شدہ ہوگی تو شوہر کا رویہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ وہ اس پر تشدد کرتا ہوگا اور وہ سب کچھ صبر شکر کر کے سہتی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامے کے آخر میں اچھی عورت کو اپنے صبر کا پھل پاتے ہوئے بھی دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ برا کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ جو قریبی رشتےدار ہوں وہ معافی مانگ لیتے ہیں۔ اس طرح اس کی جیت ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے مطابق پاکستانی ڈرامے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن ان ڈراموں کے کردار آج بھی روایتی ہیں۔ ڈرامہ بنانے والوں کو اپنے کرداروں پر محنت کرنی چاہیے اور ان کے ذریعے مخصوص سوچ پروان چڑھانے سے احتراز کرنا چاہیے۔
Discussion about this post